ہمارے ہاتھ گرچہ کٹ چکے ہیں جنگ میں
تمہارے عشق کے پرچم ابھی محفوظ ہیں
اگرچہ آنکھ کا سورج سوا نیزے پہ ہے
تمہاری یاد کے موسم ابھی محفوظ ہیں
تمہارا ہجر کاندھے پر رکھا ہے
نہ جانے کس جگہ میں جا رہا ہوں
کوئی تو ہو جو میرے درد بانٹے
مسلسل ہجر کا مارا ہوا ہوں
چاروں جانب تنہائی کے لشکر ہیں
بے ترتیب سا ایک ہے کمرہ اور میں ہوں
ویسے تو سب لوگ یہاں پر مردہ ہیں
اس نے مجھ کو زندہ سمجھا، اور میں ہوں
ہماری ڈائری پڑھنا کبھی تم غور سے
کہانی کے لیے یہ غم ابھی محفوظ ہیں
محبت لازمی ہے مانتا ہوں
مگر ہمزاد اب میں تھک گیا ہوں
محبت، ہجر نفرت مل چکی ہے
میں تقریباً مکمل ہو چکا ہوں
There are currently 6 users browsing this thread. (0 members and 6 guests)
Bookmarks