کسی نے اپنے اندھیروں میں روشنی چاہی
کسی کا ذکر کیا چاند نے بھی رات بہت
اپنے حصے کی حکومت بھی اسی کو سونپ دی
میں ندیم اس کو بھرا دربار دے کر آ گیا
ایک دیا رکھا ہے ہوا کے کاندھے پر
جس کا لرزتا، جلتا سایا اور میں ہوں
ایک دیا رکھا ہے ہوا کے کاندھے پر
جس کا لرزتا، جلتا سایا اور میں ہوں
اس کو اپنے پاس بلایا جا سکتا ہے
پنجرے میں بھی شور مچایا جا سکتا ہے
دل پر اگنے والے یاد کے شہتوتوں پر
وصل کا ریشم خود بھی بنایا جا سکتا ہے
مجھ میں بھی شامل ہے اس مٹی کا عنصر
مجھ میں بھی اک پھول اگایا جا سکتا ہے
لے کے آؤں گا خود کو ساحل پر
اور پھر جانے کیا کروں گا میں
زندگی پھر نئی نئی سی ہو
اب کوئی حادثہ کروں گا میں
There are currently 6 users browsing this thread. (0 members and 6 guests)
Bookmarks