لے کے آؤں گا خود کو ساحل پر
اور پھر جانے کیا کروں گا میں
زندگی پھر نئی نئی سی ہو
اب کوئی حادثہ کروں گا میں
صورت اشک تجھ میں آؤں گا
آنکھ بھر میں رہا کروں گا میں
چاند ناراض ہو گیا تو ندیم
گھر میں تنہا رہا کروں گا میں
زمیں کو پہلے سورج دھوپ کا پیوند کرتا ہے
پھر اس کے بعد ستلج بھی کنارا چھوڑ دیتا ہے
پھر اس کی یاد یوں آئی بدن کے خشک جنگل میں
کہ جیسے گھاس میں کوئی شرارا چھوڑ دیتا ہے
اک عمر بن ملے ہی کٹی اور ایک عمر
یہ سوچتے کٹی کہ بہانا کوئی تو ہو
اس گاؤں کی آبادی بس اتنی ہے
شہر سے بھاگ کے آنے والا اور میں ہوں
چاروں جانب تنہائی کے لشکر ہیں
بے ترتیب سا ایک ہے کمرہ اور میں ہوں
There are currently 5 users browsing this thread. (0 members and 5 guests)
Bookmarks