کیوں ترے غم میں کسی اور کو شامل کر لوں
کس لیے روئے مرے ساتھ مرا آنگن بھی
ایک ویران ریاست کی طرح ہوں میں ندیم
فتح کر کے مجھے پچھتائے مرے دشمن بھی
تو بھی آ جائے یہاں اور مرا بچپن بھی
ختم ہو جائے کہانی بھی ہر اک الجھن بھی
بھیک مل جاتی ہے اور پانی بھی پی لیتا ہوں
ہاتھ کشکول بھی ہیں اور مرے برتن بھی
کیا ضروری ہے کسی مور کا ہونا بن میں
رقص کرتا ہے ترے دھیان میں تو تن من بھی
تیر، نیزے، ڈھال اور تلوار دے کر آ گیا
اپنا سب کچھ ہی سپہ سالار دے کر آ گیا
تمہارے عشق کے ساتوں سوال مشکل ہیں
غم حیات کا بھی امتحان باقی ہے
ویسے تو سب لوگ یہاں پر مردہ ہیں
اس نے مجھ کو زندہ سمجھا، اور میں ہوں
ماں نے کاٹھ کی روٹی بھیجی ہے یہ کہہ کر
بھوک لگے تو اس کو کھایا جا سکتا ہے
There are currently 7 users browsing this thread. (0 members and 7 guests)
Bookmarks