کسی کا انتظار اب کے نہیں ہے
گئے وہ دن کہ کھڑکی دیکھتا تھا
مری آنکھوں میں بارش کی گھٹن تھی
تمہارے پاؤں بادل چومتا تھا
عین ممکن ہے کہ آ جائے مرا نام کہیں
شہرِ لیلیٰ کا گنہگار اگر مر جائے
منتظر جس کی یہ آنکھیں ہیں کئی برسوں سے
اور وہ چاند بھی اس پار اگر مر جائے
زمیں کے آخری حصے پہ میں ٹھہرا ہوا ہوں
تمہارے عشق میں جانے کہاں پہنچا ہوا ہوں
ہجومِ خواب سے گھبرا کے آنکھیں کھل گئی تھیں
پھر اس کے بعد میں تنہائی میں کھویا ہوا ہوں
گزارا تھا تمہارے شہر کی گلیوں میں بچپن
تمہارے شہر کی گلیوں میں ہی تنہا ہوا ہوں
تمہارے شہر کے پتھر تو میرے آشنا ہیں
ندیم ان کو تم اتنا کہہ دو میں آیا ہوا ہوں
کون رہتا ہے یہاں میرے علاوہ گھر میں
لوٹ آتا ہے جو ہر شام مگر میرے بعد
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks