محبت نے اکیلا کر دیا ہے
میں اپنی ذات میں اک قافلہ تھا
تمہاری ہی گلی کا واقعہ ہے
میں پہلی جب تنہا ہوا تھا
کھجوروں کے درختوں سے بھی اونچا
مرے دل میں تمہارا مرتبہ تھا
پھر اس کے بعد رستے مر گئے تھے
میں بس اک سانس لینے کو رکا تھا
قیس و لیلیٰ کا طرفدار اگر مر جائے
میں بھی مر جاؤں یہ کردار اگر مر جائے
اسے کہنا کہ یہاں تیز ہوا چلتی ہے
تتلیاں لے کے نہ اب آئے اِدھر میرے بعد
تو کیوں نہ تجھ سے تری گفتگو ہی کی جائے
ترے علاوہ یہاں میرا کوئی بھی تو نہیں
وہ مرے گزرے ہوئے کل میں کہیں رہتا ہے
اس لیے دُور سے اس شخص کو پہچان لیا
یہ اور بات کہ رہنا مرا گوارا نہیں
تمہارے شہر میں خالی مکان اب بھی ہیں
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks