بچوں کی طرح یہ لفظ میرے
معبود، انھیں بولنا سکھا دے
ہم تو جہاں والوں کی خاطر جان سے گزرے جاتے ہیں
پھر ستم کیا ہے کہ ہمیں پر تنگ ہوا ہے دہر بہت
رکھتا نہ کیوں میں رُوح و بدن اُس کے سامنے
وہ یُوں بھی تھا طبیب وہ یُوں بھی طبیب تھا
احتیاط اہل محبت کہ اسی شہر میں لوگ
گل بدست آتے ہیں اور پایہ رسن جاتے ہیں
ہر کڑی رات کے بعد ایسی قیامت گزری
صبح کا ذکر بھی آئے تو لرز جاتے ہیں
جو اُس نے کیا اُسے صلہ دے
مولا مجھے صبر کی جزا دے
یہ قوم عجیب ہو گئی ہے
اس قوم کو خوئے انبیا دے
چہرہ مجھے اپنا دیکھنے کو
اب دستِ ہوس میں آئینہ دے
جب تک ہم مانوس نہیں تھے درد کی ماری دنیا سے
عارض عارض رنگ بہت تھے آنکھوں آنکھوں سحر بہت
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks