اب تو جینے دو زمانے وا لو
اب تو اس زُلف کے خَم بھول گئے
اے روح قطرہ قطرہ پگھل آپ کے لیے
اے خامہ سیلِ خواب میں چل آپ کے لیے
اپنے معاملے میں حساب اسکا اور ہے
سو بار اے زباں سنبھل آپ کے لیے
مرتا ہوں آرزو میں کہ اے کاش لکھ سکوں
جیسے ہیں آپ ایسی غزل آپ کے لیے
اس ظرف کائنات پہ کتنے کھلیں گے آپ
جب اس کا ایک دور ہو پل آپ کے لیے
دل گزارو کہ جاں نثار کرو
دور صدیوں کا یہ غبار کرو
زنگی ایک بار ملتی ہے
دوستو زندگی سے پیار کرو
دیکھا مجھے تو طبع رواں ہو گئی میری
وہ مُسکرا دیا تو میں شاعر ادیب تھا
اب تو اس طرح مری آنکھوں میں خواب آتے ہیں
جس طرح آئینے چہروں کو ترس جاتے ہیں
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks