جہاں بیٹھے ، صدائے غیب آئی
یہ سایہ بھی اُسی دیوار کا ہے
وصالِ یار سے پہلے محبت
خود اپنی ذات کا اک راستا ہے
سلامت آئینے میں ایک چہرہ
شکستہ ہو تو کتنے دیکھتا ہے
جن کو دعویٰ تھا مسیحائی کا
اپنا ہی دیدۂ نم بھول گئے
زندگی نے جو سکھایا تھا علیم
زندگی کے لئے ہم بھول گئے
ہر شعر ماورائے سخن ہو کچھ اس طرح
اے دل تو لفظ لفظ میں ڈھل آپ کے لیے
اس دشتِ بے اماں سے نکل آپ کے لیے
اے روح کائنات بدل آپ کے لیے
اُترے گا نہ کوئی آسماں سے
اک آس میں دل مگر صدا دے
اک میرا وجود سُن رہا ہے
الہام جو رات کی ہوا دے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks