ہم نے کھلنے نہ دیا بے سر و سامانی کو
کہاں لے جائیں مگر شہر کی ویرانی کو
بے حسی وہ ہے کہ کرتا نہیں انساں محسوس
اپنی ہی روح میں آئی ہوئی طغیانی کو
آج بھی اس کو فراز آج بھی عالی ہے وہی
وہی سجدہ جو کرے وقت کی سلطانی کو
عشوہ و غمزہ و رم بھول گئے
تیری ہر بات کو ہم بھول گئے
جانے کیوں لوگ ہنسا کرتے ہیں
جانے ہم کونسا غم بھول گئے
مانگے ہے جیسے سجدوں میں دل آج آپ کو
تڑپے سوا یہ آج سے کل آپ کے لیے
کوئی مذہب نہیں ہے خوشبو کا
عام یہ مژدۂ بہار کرو
یار ہما را ایلیا ہم سے اٹھا لیا گیا
بیٹھے اب اپنی ذات میں ایلیا ایلیا کر و
فخر ہم پیشہ گہ دیدہ وراں جانے دو
داغ ہم پیشہ گیہ ننگ ہنر تو دیکھو
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks