قید ہی شر ط ہے اگر یہ بھی مر ی سزا کرو
وصل کی قید دو مجھے ہجر سے اب رہا کر و
درد کی دولت کمیاب میرے پاس بہت
ظرف کی داد تو دو میرا جگر تو دیکھو
اور چاند کا دشت بھی آباد کبھی کر لینا
پہلے دنیا کے یہ اجڑے ہوئے گھر تو دیکھو
کتنے کوہِ گراں کاٹے تب صبحِ طرب کی دید ہوئی
اور یہ صبحِ طرب بھی یارو کہتے ہیں بیگانی ہے
دل کہتا ہے وہ کچھ بھی ہو اس کی یاد جگائے رکھ
عقل یہ کہتی ہے کہ توہّم پر جینا نادانی ہے
گزرو نہ اس طرح کہ تماشا نہیں ہوں میں
سمجھو کہ اب ہوں اور دوبارہ نہیں ہوں میں
ہو دیدۂ ہنر دلِ درد آشنا کی خیر!
کب لذّتِ خیال میں دریا نہیں ہوں میں
جو مہرباں کوئی چہرہ نظر بھی آتا ہے
تو دل میں گُزرے زمانوں کا ڈر بھی آتا ہے
ابھی چلا بھی نہ تھا اور رُک گئے پاؤں
یہ سوچ کر کہ مرا ہمسفر بھی آتا ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks