دیکھا ہے اُس خلوت و جلوت میں بار ہا
وہ آدمی بہت ہی عجیب و غریب تھا
جیسے تجدید تعلق کی بھی رُت ہو کوئی
زخم بھرتے ہیں تو احباب بھی آ جاتے ہیں
یا میرے دیے کی لو بڑھا دے
یا رات کو صُبح سے ملا دے
وہ روشنی کہ آنکھ اُٹھائی نہیں گئی
کل مجھ سے میرا چاند بہت ہی قریب تھا
لکّھو تمام عمر مگر پھر بھی تم علیم
اُس کو دِکھا نہ پاؤ وہ ایسا حبیب تھا
ساقیا ! تو نے تو میخانے کا یہ حال کیا
بادہ کش محتسب شہر کے گن گاتے ہیں
سچ ہوں تو مجھے امر بنا دے
جھوٹا ہوں تو نقش سب مٹا دے
کیا چیز ہے خواہشِ بدن بھی
ہر بار نیا ہی ذائقہ دے
ہم دیوانوں کی قسمت میں لکھے ہیں یاں قہر بہت
کوچہ کوچہ سنگ بہت اور زنداں زنداں زہر بہت
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks