کوئی چرا کے مجھے کیسے چھپ سکے کہ علیم
لہو کا رنگ مرے حرف پر بھی آتا ہے
وہ آخری آدمی خُدا کا
سب لفظ و بیاں بدل گیا ہے
ہر زندہ چراغ ہے اُسی کا
وہ نُور کہاں بدل گیا ہے
کِس خلوتِ خاص میں گیا وہ
کپڑے بھی یہاں بدل گیا ہے
خواب میں ایک شکل تھی میرے
تُو تو اُس سے بھی خوبصورت ہے
وصال کا ہو کہ اس کے فراق کا موسم
وہ لذتیں تھیں کہ اندر سے ٹوٹتا تھا میں
پھر اس طرح کبھی سویا نہ اس طرح جاگا
کہ نیند روح میں تھی اور جاگتا تھا میں
پھول تو سہم گئے دست کرم سے دمِ صبح
گنگناتی ہوئی آوارہ صبا کیوں چپ ہے
ایک نمرود کی خدائی میں
زندگی تھی عجب فقیر کے ساتھ
There are currently 10 users browsing this thread. (0 members and 10 guests)
Bookmarks