چڑھا ہوا تھا وہ نشہ کے کم نہ ہوتا تھا
ہزار بار ابھرتا تھا ڈوبتا تھا میں
کہاں شکست ہوئی اور کہاں صلہ پایا
کسی کا عشق کسی سے نباہتا تھا میں
اب تو یوں خانۂ تنہائی میں محبُوب آئے
جیسے مجذوب کے گھر دوسرا مجذوب آئے
آگے کیا ہو یہ سخن آج تو یوں ہے جیسے
اپنے نام اپنا ہی لکھا ہوا مکتوب آئے
ایک دربار کی تصویر میں کچھ اہل قلم
وقت کی آنکھ نے دیکھا کے بہت خوب آئے
دکھ سے پھر جاگ اٹھی آنکھ ستارے کی طرح
اور سب خواب ترے نام سے منسوب آئے
صاحب مہر وفا ارض و سما کیوں چپ ہیں
ہم پہ تو وقت کے پہرے ہیں خدا کیوں چپ ہیں
بے سبب غم میں سلگنا مری عادت ہی سہی
ساز خاموش ہے کیوں شعلہ نوا کیوں چپ ہے
ختم ہو گا نہ کبھی سلسلہ اہل وفا
سوچ اسے داورِ مقتل یہ فضا کیوں چپ ہے
There are currently 8 users browsing this thread. (0 members and 8 guests)
Bookmarks