ہائے وہ کاجل بھری آنکھیں وہ ان کا دیکھنا
ہائے وہ نور حیا سے آتشیں رخسار دوست
دیکھ کر قد قیامت سوچ کر زلفیں دراز
اپنی ہی رفتار کے نشے میں ہے رفتار دوست
ہاتھ اٹھے ہوں دعا کو اس طرح اس کا بدن
قتل عاشق کو بہت ہے قامت تلوار دوست
ہائے وہ کاجل بھری آنکھیں وہ ان کا دیکھنا
ہائے وہ نور حیا سے آتشیں رخسار دوست
جیسے ہم آغوشیِ جاں کے زمانے ہوں قریب
ان دنوں ایسے نظر آتے ہیں کچھ آثار دوست
اک محبت سے محبت ہی جنم لیتی رہی
ہم نے اس کو یار جانا جس کو دیکھا یار دوست
صدیوں کی اس دھو پ چھا ؤں میں کو ئی ہمیں بتلائے
پو ری ہو تی کونسی اس کی بات نہیں دیکھی
دل پہ کھلتا ہے اسی موسِم میں
غم کسے کہتے ہیں اور کیا ہے طرب
تم سا کیا ہو گا یہاں خواب کوئی
مجھ سا کیا ہو گا کوئی خواب طلب
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks