خوشی کے مارے زمیں پر قدم نہیں پڑتے
جرس سے مژدہ منزل ہے کارواں سنتا
مجھے وہ روشنی خانہ یاد آتا ہے
کسی کے گھر میں ہوں دوست مہماں سنتا
گستاخ بہت شمع سے پروانہ ہوا ہے
موت آئی ہے ، سر چڑھتا ہے ، دیوانہ ہوا ہے
نالوں سے مرے کون تھا تنگ مرے بعد
کس گھر میں نہیں سجدۂ شکرانہ ہوا ہے
معشوق نہیں کوئی حسیں تم سے زیادہ
مشتاق ہیں کس ماہ کے انجم سے زیادہ
بجلی کو جلا دیں گے وہ لب دانت دکھا کر
شغل آج کل ان کو ہے تبسم سے زیادہ
چلے گا کبک کیا رفتار تیری
یہ انداز قدم پایا تو ہوتا
نہ کیوں کر حشر ہوتا دیکھتے ہو
قیامت قد ترا لایا تو ہوتا
شام سے ڈھونڈا کیا زنجیر پھانسی کے لئے
صبح تک میں نے خیالِ گیسوئے پیچاں کیا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks