اک ترک شہسوار کی دیوانی روح ہے
زنجیر میں ہمارے ہو لوہا رکاب کا
حسن و جمال سے ہے زمانے میں روشنی
شب ماہتاب کی ہے، تو روز آفتاب کا
مسجد سے مے کدے میں مجھے نشّہ لے گیا
موجِ شرابِ جادہ تھی، راہِ ثواب کا
الفت جو زلف سے ہے دلِ داغ دار کو
طاؤس کو یہ عشق نہ ہو گا سحاب کا
پاتا ہوں ناف کا کمرِ یار میں مقام
چشمہ مگر عدم میں ہے گوہر کی آب کا
کیا کیا اُلجھتا ہے تری زلفوں کے تار سے
بخیہ طلب ہے سینۂ صد چاک شانہ کیا؟
طبل و عَلم ہے پاس نہ اپنے ہے ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا
صّیاد گُل عذار دکھاتا ہے سیرِ باغ
بلبل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا
یوں مدّعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے
آتِش غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks