مار دیتا ہے اجڑ جانے کا دہرا احساس
کاش ہو کوئی کسی سے نہ جدا شام کے بعد
آ گرے ہیں عین ویرانی کے بیچ
کچھ پرندے کچھ شجر بیمار سے
رستے خالی خالی ہیں
کوئی رہ سے گزرا ہے
ایسا زور نصیب میرا
جانے کس نے لکھا ہے
میں مطمئن ہوں کہ تو مطمئن نہیں دشمن
ابھی تو ایک یہی چال رزم گاہ میں ہے
یہ شہر بھر میں بھلا کیوں اکڑ کے پھرتے ہو؟
ہمیں غرور بہت ہے کہ ہم نے پیار کیا
کوئی تضاد کوئی اختلاف اس دوراں؟
غموں کو کُند کیا دل کو تیز دھار کیا
کہو جو لوگوں پہ احسان کرتے پھرتے ہو؟
خود اپنے دل کو سدا میں نے زیر بار کیا
بتاؤ دُکھ کی ریاضت میں کیا کیا تم نے ؟
اجل کو پھول کیا، زندگی کو خار کیا
There are currently 4 users browsing this thread. (0 members and 4 guests)
Bookmarks