تھا میر جن کو شعر کا آزار مر گئے
غالب تمہارے سارے طرفدار مر گئے
مجھے اشتہار سی لگتی ہیں، یہ محبّتوں کی کہانیاں
جو کہا نہیں وہ سُنا کرو، جو سُنا نہیں وہ کہا کرو
مُحبت، عداوت ، وفا ، بے رُخی
کرائے کے گھر تھے بدلتے رہے
یُوں پیار نہیں چھپتا ، پلکوں کے جھکانے سے
آنکھوں کے لفافوں میں تحریر چمکتی ہے
ہنسو آج اتنا کہ اس شور میں
صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے
غلامی کو برکت سمجھنے لگیں
اسیروں کو ایسی رہائی نہ دے
کاغذ میں دب کے مر گئے کیڑے کتاب کے
دیوانہ بے پڑھے لکھے مشہور ہو گیا
کسے خبر کہ فرشتے غزل سمجھتے ہیں
خُدا کے سامنے کافر کا نام لینا ہے
تم جن کے نیچے بیٹھ کے اوتار ہو گئے
ان برگدوں کا میں بھی پرندہ ہوں دوستو
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks