بڑے سلیقے سے نوٹوں میں اُس کو تلوا کر
امیرِ شہر سے اب انتقام لینا ہے
یہ غزل کِس کی ہے اس مطلع کو پڑھ کر دیکھو
چاند کی چودھویں تاریخ ہے ، اوپر دیکھو
ہم غریبوں سے کبھی ٹوٹ کے ملنے آؤ
کیا بکھر نے میں مزا ہے یہ بکھر کر دیکھو
بے وقت اگر جاؤں گا سب چونک پڑیں گے
اک عمر ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا
جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
یہ پھُول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں
تم نے مر ا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا
مطمئن ہیں ذرا امیر و غریب
ہر مصیبت مڈل کلاس کی ہے
سب کو ساقی نے یہ جواب دیا
یہ خطا آپ کے گلاس کی ہے
تیری خوشبو میں دیکھ لیتا ہوں
یہ مہک تیرے آس پاس کی ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks