حسن و جمال کے بھی زمانے نہیں رہے
آنکھوں میں اس کی خواب سہانے نہیں رہے
اُٹھتی نہیں ہیں شوق و تجسّس کے باوجود
آنکھوں کے کتنے کام پرانے نہیں رہے
کمرے سب بھر گئے ہیں مسائل کی گرد سے
دل میں تیرے خیال کے خانے نہیں رہے
اک صدا سی برف بن کر گر رہی تھی جسم پر
ایک زنجیر ہوا تھی جو میرے پاؤں میں تھی
درد کی سلطنت کا راج ملا
بے قراری کا تخت و تاج ملا
دن کو ہم سے ملا ہے صبر جمیل
رات کو درد کا خراج ملا
تیری یادیں ہی چھانتے ہیں ہم
دیکھو کیسا یہ کام کاج ملا
جاتے جاتے اس طرح سب کچھ سوالی کر گیا
روح کا کمرہ بھرا رہتا تھا خالی کر گیا
ہجر کا اسپ پریشاں دل کی ہر اک آرزو
فصل لا وارث سمجھ کر پائمالی کر گیا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks