وہ گزر گیا ہے ساغر کوئی قافلہ چمن سے
کہیں آگ جل رہی ہے کہیں آگ بجھ گئی ہے
زلف بل کھا رہی ہے ماتھے پر
چاندنی سے صبا لڑی ہو گی
وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو
ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو
وقت کی چند ساعتیں ساغر
لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو
سنا ہے یہ بھی رسم عاشقی ہے
ہم اپنے غمگساروں تک چلیں گے
کوئی نالہ یہاں رسا نہ ہوا
اشک بھی حرفِ مدعا نہ ہوا
رہزن عقل و ہوش دیوانہ
عشق میں کوئی رہنما نہ ہوا
یہ موسم شورشِ جذبات کا مخصوص موسم ہے
دل ناداں کو بہلائیے، برسات کے دن ہیں
مخمور شرابوں کے بدلے
رنگین خطائیں پی جاؤ
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks