عدم کے کوچ کی لازم ہے فکر ہستی میں
نہ کوئی شہر نہ کوئی دیار راہ میں ہے
طریقِ عشق میں اے دل عصائے آہ ہے شرط
کہیں چڑھاؤ کسی جا اتار راہ میں ہے
نہ جائیں آپ ابھی دوپہر ہے گرمی کی
بہت سی گرد بہت سا غبار راہ میں ہے
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے
کوئی تو دوش سے بارِ سفر اتارے گا
ہزار رہزنِ امیدوار راہ میں ہے
پیادہ پا ہوں رواں سوئے کوچۂ قاتل
اجل مری مرے سر پر سوار راہ میں ہے
چلا ہے تیر و کماں لے کے صید گاہ وہ تُرک
خوشا نصیب وہ جو جو شکار راہ میں ہے
عجب اس کا کیا نہ سماؤں میں جو خیالِ دشمن و دوست میں
وہ مقام ہوں کہ گزر نہیں، وہ مکان ہوں کہ پتا نہیں
یہ خلاف ہو گیا آسماں، یہ ہوا زمانہ کی پھر گئی
کہیں گُل کھلے بھی تو بُو نہیں، کہیں حسن ہے تو وفا نہیں
There are currently 5 users browsing this thread. (0 members and 5 guests)
Bookmarks