کسی اور غم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے،
غم دل مرے رفیقو! غم رائیگاں نہیں ہے
کوئی ہم نفس نہیں ہے، کوئ راز داں نہیں ہے
فقط ایک دل تھا اب تک سو و ہ مہرباں نہیں ہے
کسی آنکھ کو صدا دو کسی زلف کو پکار و
بڑی دھوپ پڑ رہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے
اب کے کھل جائیں خزانے نفسِ سوزاں کے
اب کے محرومی اظہار نہ ہونے پائے
یہ جو غدّار ہے اپنی ہی صفِ اوّل میں
غیر کے ہاتھ کی تلوار نہ ہونے پائے
یوں تو ہے جوہرِ گفتار بڑا وصف مگر
وجہ بیماری گفتار نہ ہونے پائے
دشت میں خونِ حسین ابنِ علی بہ جائے
بیعتِ حاکمِ کفّار نہ ہونے پائے
رازِ بستہ کو نشاناتِ خفی میں پڑھ لوں
واقفِ صورتِ ارواحِ بزرگاں بن جاؤں
دیکھنا اوجِ محبّت کہ زمیں کے اُوپر
ایسے چلتا ہوں کہ چاہوں تو سُلیماں بن جاؤں
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks