آخر تمام عمر کی وسعت سما گئی
اک لمحۂ گزشتہ کی چھوٹی سے بات میں
اے دل ذرا سی جرأت رندی سے کام لے
کتنے چراغ ٹوٹ گئے احتیاط میں
اور اپنا یہی جرم کہ باوصفِ روایت
ہم ناصح مشفق کو فرشتہ نہیں کہتے
اجسام کی تطہیر و تقدس ہے نظر میں
ارواح کے حالات پہ نوحہ نہیں کہتے
ہم نے کبھی دنیا کو حماقت نہیں سمجھا
ہم لوگ کبھی غم کو تماشا نہیں کہتے
وہ بھی تو سنیں میرے یہ اشعار کسی روز
جو لوگ نئی نسل کو اچھا نہیں کہتے
کہیں کہیں پہ ستاروں کے ٹوٹنے کے سوا
افق اداس ہے دنیا بڑی اندھیری ہے
لہو جلے تو جلے اس لہو سے کیا ہوگا
کچھ ایک راہ نہیں ہر فضا لُٹیری ہے
بس ایک گوشہ میں کُچھ دیپ جگمگاتے ہیں
وہ ایک گوشہ جہاں زُلفِ شب گھنیری ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks