میری آنکھوں کی طرف دیکھ رہے ہیں اَنجُم
جیسے پہچان گئی ہو شبِ بیدار مُجھے
جو دن گزر گئے ہیں ترے التفات میں
میں ان کو جوڑ لوں کہ گھٹا دوں حیات میں
میرا تو جرم تذکرہ عام ہے مگر
کچھ دھجیاں ہیں میری زلیخا کے ہاتھ میں
غزلیں نہیں لکھتے ہیں قصیدہ نہیں کہتے
لوگوں کو شکایت ہے وہ کیا کیا نہیں کہتے
انسان کے چہرے کے پرستار ہوئے ہیں
اور قاف کی پریوں کا فسانہ نہیں کہتے
نظر پہ شام کی وحشت ، لبوں پہ رات کی اوس
کسے طرب میں سکوں ، کس کو غم میں سیری ہے
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
دیکنا اہلِ جنوں ساعتِ شب آ پہنچی
اب کوئی نقش بدیوار نہ ہونے پائے
نئی نسل اس انداز سے نکلے سرِ رزم
کہ مورّخ کی گُنہ گار نہ ہونے پائے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks