چھلکے ہوئے تھے جام، پریشان تھی زلف یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
ساغر وہ کہہ رہے تھے کی پی لیجئے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا!
ذرا کچھ اور قربت زیر داماں لڑکھڑاتے ہیں
مئے شعلہ فگن پی کر گلستاں لڑکھڑاتے ہیں
قرار دین و دنیا آپ کی بانہوں میں لرزاں ہیں
سہارے دیکھ کر زلف پریشاں لڑکھڑاتے ہیں
تری آنکھوں کے افسانے بھی پیمانے ہیں مستی کے
بنام ہوش مدہوشی کے عنواں لڑکھڑاتے ہیں
سنو! اے عشق میں توقیر ہستی ڈھونڈنے والو
یہ وہ منزل ہے جس منزل پہ انساں لڑکھڑاتے ہیں
تمہارا نام لیتا ہوں فضائیں رقص کرتی ہیں
تمہاری یاد آتی ہے تو ارماں لڑکھڑاتے ہیں
کہیں سے میکدے میں اس طرح کے آدمی لاؤ
کہ جن کی جنبشِ ابرو سے ایماں لڑکھڑاتے ہیں
اطاعت پہ ہے جبر کی پہرہ داری
قیادت کے ملبوس میں ہے شکاری
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks