تشنگی تشنگی ارے توبہ!
زلف لہراؤ ! وقت نازک ہے
جنوں کی وادیوں سے پھول چن لو
وفا کی یادگاروں تک چلیں گے
ماہتابی نگاہ والوں سے
دل کے داغوں کا سامنا نہ ہوا
اگر بزم ِ انساں میں عورت نہ ہوتی
خیالوں کی رنگین جنت نہ ہوتی
فقیروں کو عرفان ہستی نہ ملتا
عطا زاہدوں کو عبادت نہ ہوتی
کسی پُر نور تہمت کی ضرورت ہے گھٹاؤں کو
کہیں سے مہ وشوں کو لائیے، برسات کے دن ہیں
برگشتۂ یزداں سے کچھ بھول ہوئی ہے
بھٹکے ہوئے انساں سے کچھ بھول ہوئی ہے
ہنستے ہیں مری صورت مفتوں پہ شگوفے
میرے دل ناداں سے کچھ بھول ہوئی ہے
اے تشنہ دہانِ جور خزاں
پھولوں کی ادائیں پی جاؤ
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks