خاک اڑتی ہے تیری گلیوں میں
زندگی کا وقار دیکھا ہے
حادثے لوریوں کا حاصل ہیں
وقت کی آنکھ لگنے والی ہے
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
بنامِ زہرہ جبینانِ خطۂ فردوس
کسی کرن کو جگاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
غمِ زندگی کہاں ہے ابھی وحشتوں سے فرصت
ترے ناز اٹھا ہی لیں گے ابھی زندگی پڑی ہے
دستکیں دے رہی ہے پلکوں پر
کوئی برسات کی جھڑی ہو گی
کیوں گرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے
جاں کسی پھول کی اڑی ہو گی
بندہ پرور جو ہم پہ گزری ہے
ہم بتائیں تو کیا تماشا ہو
یقین کر کہ یہ کہنہ نظام بدلے گا
مرا شعور مزاج عوام بدلے گا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks