کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
تخیل سے گزرتے ہیں تو نغمے چونک اُٹھتے ہیں
تصور میں بہ انداز بہاراں لڑکھڑاتے ہیں
یقیناً حشر کی تقریب کے لمحات آ پہنچے
قدم ساغر قریب کوئے جاناں لڑکھڑاتے ہیں
گرانی کی زنجیر پاؤں میں ہے
وطن کا مقدر گھٹاؤں میں ہے
اے عکسِ زلفِ یار ہمیں تو پناہ دے
گھبرا کے آ گئے ہیں بڑی روشنی سے ہم
جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے کا نقاب
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں
ان کے ابروئے خمیدہ کی طرح تیکھا ہے
اپنی آنکھوں میں بڑی دیر چبھا، عید کا چاند
ہائے تخلیق کی کار پردازیاں
خاک سی چیز کو کہہ دیا آدمی
گونجتی ہی رہے گی فلک در فلک
ہے مشیت کی ایسی صدا آدمی
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks