چلو تم بھی! سفر اچھا رہے گا
ذرا اجڑے دیاروں تک چلیں گے
تلخی درد ہی مقدر تھی
جامِ عشرت ہمیں عطا نہ ہوا
ڈوبنے کا خیال تھا ساغر
ہائے ساحل پہ ناخدا نہ ہوا
گھٹاؤں کی آمد کو ساون ترستے
فضاؤں میں بہکی بغاوت نہ ہوتی
سفینہ لے چلا ہے کس مخالف سمت کو ظالم
ذرا ملّاح کو سمجھائیے، برسات کے دن ہیں
سہانے آنچلوں کے ساز پر اشعار ساغر کے
کسی بے چین دھن میں گائیے، برسات کے دن ہیں
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطاں سے کچھ بھول ہوئی ہے
زلفوں کی گھٹائیں پی جاؤ
وہ جو بھی پلائیں پی جاؤ
اشکوں کا مچلنا ٹھیک نہیں
بے چین دعائیں پی جاؤ
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks