ابھی رنگ آنسوؤں میں ہے تری عقیدتوں کا
ابھی دل میں بس رہے ہیں تری یاد کے شوالے
آنکھ روشن ہے جیب خالی ہے
ظلمتوں میںکرن سوالی ہے
چراغِ طور جلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
جسے زبانِ خرد میں شراب کہتے ہیں
وہ روشنی سی پلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
یہ مشاہدہ نہیں ہے مرے درد کی صدا ہے
میرے داغِ دل لیے ہیں تری بزم جب سجی ہے
ٍ وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی
اک ترے وصل کی گھڑی ہو گی
اے عدم کے مسافرو ہشیار
راہ میں زندگی کھڑی ہو گی
یہ کہہ رہی ہیں فضائیں بہار ہستی کی
نیا طریق قفس اور دام بدلے گا
جام ٹکراؤ! وقت نازک ہے
رنگ چھلکاؤ! وقت نازک ہے
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks