یہ گہر جس کو آفتاب کہیں
کس اندھیرے کی کان سے نکلا
شکر ہے اس نے بے وفائی کی
میں کڑے امتحان سے نکلا
اٹھتا ہے دل میں شور سا آٹھوں پہر مرے
زخموں کو کیسی قوتِ گویائی دے گیا
غم، درد، کرب، آہ، فغاں، اشک ، بے کلی
کیا کیا عنایتیں مجھے ہر جائی دے گیا
آنکھوں سے میری نیند کی دنیا چرا کے وہ
اطیبؔ شکستِ خواب کی سچائی دے گیا
زمانہ گزرا ہے خوشیوں کا ساتھ چھوڑے ہوئے
مرے مزاج کو اب غم شناس رہنے دو
مجھ کو دیا تھا درسِ وفا جس نے پیار سے
آنکھوں کو انتظار کی انگنائی دے گیا
عمل کی رُت میں پنپتی ہیں ٹہنیاں حق کی
مِلاؤ سچ سے نگاہیں، قیاس رہنے دو
ارماں جگا کے اور نئے وعدے پہ ٹال کے
لمسِ لطیف دے گیا، انگڑائی دے گیا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks