اے دوست چشمِ شوق نے دیکھا ہے بارہا
بجلی سے تیرا نام گھٹا پر لکھا ہوا
کنار آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی
گماں گزرتا ہے یہ شخص دوسرا ہے کوئی
ضربِ خیال سے کہاں ٹوٹ سکیں گی بیڑیاں
فکرِ چمن کے ہم رکاب جوشِ جنوں بھی چاہئے
نغمۂ شوق خوب تھا، ایک کمی ہے مطربہ
شعلۂ لب کی خیر ہو، سوزِ دروں بھی چاہئے
کشمکشِ حیات ہے، سادہ دلوں کی بات ہے
خواہشِ مرگ بھی نہیں، زہرِ سکوں بھی چاہئے
سیراب کس طرح ہو زمیں دور دور کی
ساحل نے ہے ندی کو مقیّد کیا ہوا
ہوا نے توڑ کے پتہ زمیں پہ پھینکا ہے
کہ شب کی جھیل میں پتھر گرا دیا ہے کوئی
اب تو خونِ جگر بھی ختم ہوا
میں کہاں تک خلا میں رنگ بھروں
چھلک چھلک کے بڑھا میری سمت نیند کا جام
پگھل پگھل کے گرے قفل قید خانوں کے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks