یوں ہی تو نہیں امڈی چلی آتی ہیں غزلیں
پہلو میں مرے، زمزمہ خواں ہیں تری آنکھیں
دیکھیے ہم کو غور سے، پوچھیے اہلِ جور سے
روحِ جمیل کے لیے حالِ زبوں بھی چاہئے
اے روشنی کی لہر کبھی تو پلٹ کے آ
تجھ کو بلا رہا ہے دریچہ کھلا ہوا
پہچانتے نہیں اسے محفل میں دوست بھی
چہرہ ہو جس کا گردِ الم سے اٹا ہوا
اس دور میں خلوص کا کیا کام اے شکیبؔ
کیوں کر چلے بساط پر مہرا پِٹا ہوا
یہ ہے تاکید سننے والوں کی
واقعہ خوشگوار ہو تو کہوں
جی میں آتا ہے اے رہِ ظلمت
کہکشاں کو مروڑ کر رکھ دوں
موجِ صبا رواں ہوئی، رقصِ جنوں بھی چاہئے
خیمۂ گُل کے پاس ہی دجلۂ خوں بھی چاہئے
اتنا کم تو کیجیے، بجھتا کنول نہ دیجیے
زخمِ جگر کے ساتھ ہی دردِ فزوں بھی چاہئے
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks