جو بھی ہمدرد بن کے آتے ہیں
غم کا احساس ہی جگاتے ہیں
سر چشمۂ افکار جواں ہیں تری آنکھیں
تابندہ خیالات کی جاں ہیں تری آنکھیں
جاؤں گا کہاں توڑ کے زنجیرِ وفا کو
ہر سو مری جانب نگراں ہیں تری آنکھیں
آج وہ یوں نگہِ شوق سے بچ کر گزرے
جیسے یاد آئے کوئی بھولی ہوئی بات ہمیں
کس دشت کی صدا ہو، اتنا مجھے بتا دو
ہر سو بچھے ہیں رستے، آؤں تو میں کدھر سے
جس قدر خود کو وہ چھپاتے ہیں
لوگ گرویدہ ہوتے جاتے ہیں
خود کو بدنام کر رہا ہوں میں
ان پہ الزام آئے جاتے ہیں
اجنبی بن کے جی رہا ہوں میں
لوگ مانوس ہوتے جاتے ہیں
آئینۂ جذباتِ نہاں ہیں تری آنکھیں
اک کار گہِ شیشہ گراں ہیں تری آنکھیں
There are currently 4 users browsing this thread. (0 members and 4 guests)
Bookmarks