سنگ منزل نے لہو اگلا ہے
دور ہم بادیہ پیماؤں سے دور
مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ
سورج ہوں، میرا رنگ مگر دن ڈھلے بھی دیکھ
بچھتی تھیں جس کی راہ میں پھولوں کی چادریں
اب اس کی خاک گھاس کے پیروں تلے بھی دیکھ
جور حالات بھلا ہو تیرا
چین ملتا ہے شناساؤں سے دور
رقصِ آشفتہ سراں دیکھیں گے
دور ان انجمن آراؤں سے دور
اس خاکداں میں اب تک باقی ہیں کچھ شرر سے
دامن بچا کے گزرو یادوں کی رہگزر سے
کیوں جادۂ وفا پر مشعل بکف کھڑے ہو
اِس سیلِ تیرگی میں نکلے گا کون گھر سے
اجڑا ہوا مکاں ہے یہ دل، جہاں پہ ہر شب
پرچھائیاں لپٹ کر روتی ہیں بام و در سے
نہ سہی کوئی، ہجومِ گل و لالہ نہ سہی
دشت سے کم بھی نہیں کنجِ خیالات ہمیں
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks