میں گھٹا ہوں، نہ پَون ہوں، نہ چراغ
ہم نشیں میرا کوئی کیا ہوتا
مجھ سے شفّاف ہے سینہ کس کا
چاند اس جھیل میں اترا ہوتا
سائے میں جان پڑ گئی دیکھا جو غور سے
مخصوص یہ کمال ہے اہلِ نظر کے ساتھ
راکھ کر دیتے جلا کر شعلے
یہ دھواں دل میں نہ پھیلا ہوتا
تھی مقدّر میں خزاں ہی تو شکیبؔ
میں کسی دشت میں مہکا ہوتا
منظر کو دیکھ کر پس منظر بھی دیکھئے
بستی نئی بسی ہے پرانے کھنڈر کے ساتھ
کچھ تو آتا مری باتوں کا جواب
یہ کنواں اور جو گہرا ہوتا
نہ بکھرتا جو فضا میں نغمہ
سینۂ نَے میں تڑپتا ہوتا
یادیں ہیں اپنے شہر کی اہل سفر کے ساتھ
صحرا میں لوگ آئے ہیں دیوار و در کے ساتھ
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks