برگِ دل کی طرح ہے زرد ہَوا
پھانکتی ہے کہاں کی گرد ہَوا
دَم نہ مارے مری طرح جو سہے
اس زمانے کے گرم و سرد ہَوا
تو جو اس راہ سے گزرا ہوتا
تیرا ملبوس بھی کالا ہوتا
بن میں بھی ساتھ گئے ہیں سائے
میں کسی جا تو اکیلا ہوتا
اور بھی ٹوٹ کے آتی تری یاد
میں جو کچھ دن تجھے بھولا ہوتا
نادان گھٹاؤں کے طلب گار ہوئے ہیں
شعلوں کو بنا کر نگَراں موسمِ گل کا
یوں تری گرم نگاہی سے پگھلتے دیکھا
جس طرح کانچ کا گھر ہو مرے پندار کا شہر
خموشی بول اٹھے، ہر نظر پیغام ہو جائے
یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے
مثال ایسی ہے اس دورِ خرد کے ہوش مندوں کی
نہ ہو دامن میں ذرّہ اور صحرا نام ہو جائے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks