سورج کی کرن تھے جانے کیا تھے
ظلمت میں اُتر اُتر گئے ہم
جب تک کہ ہوس رہی گُلوں کی
کانٹے بھی رہے قبول یارو
دشت احساس میں شعلہ سا کوئی لپکا تھا
اسی بنیاد پہ تعمیر ہوا پیار کا شہر
تیشۂ غم سے ہوئی روح تو ٹکڑے ٹکڑے
کیوں سلامت ہے مرے جسم کی دیوار اب تک
یوں تو سارا چمن ہمارا ہے
پھول جتنے بھی ہیں پرائے ہیں
اب اپنے جسم کے سائے میں تھک کے بیٹھ رہو
کہیں درخت نہیں راستے میں دور نہ پاس
تمہارے کام نہ آئے گا جو بھی دانا ہے
ہر ایک شخص پہ کیوں کر رہے ہو اپنا قیاس
کسی کی آس تو ٹوٹی کوئی تو ہار گیا
کہ نیم باز دریچوں میں روشنی ہے اداس
یہ کیا طلسم ہے، جب سے کنارِ دریا ہوں
شکیبؔ اور بھی کچھ بڑھ گئی یے روح کی پیاس
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks