مجھ کو زنداں میں بھی مل جائے گا عنوانِ جنوں
نگہتِ گُل کو کریں قید خیاباں زادے
مانندِ صبا جدھر گئے ہم
کلیوں کو نہال کر گئے ہم
چلنا تھا جہاں محال یارو
اس راہ سے بھی گزر گئے ہم
ہنس ہنس کے گلے ملے قضا سے
تکمیلِ حیات کر گئے ہم
تا حدِّ خیال لالہ و گُل
تا حدِّ نظر ببول یارو
کوئی دیکھے تو سہی یار طرح دار کا شہر
میری آنکھوں میں سجا ہے لب و رخسار کا شہر
میری نظروں میں چراغاں کا سماں رہتا ہے
میں کہیں جاؤں مرے ساتھ ہے دلدار کا شہر
میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں
خود اپنی چاپ سن کر لرز بر اندام ہو جائے
شکیبؔ اپنے تعارف کیلئے یہ بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks