مرا خزانہ ہے محفوظ میرے سینے میں
میں سو رہوں گا یونہی چھوڑ کر مکان کھلا
جزا کہیں کہ سزر اس کو بال و پر والے
زمیں سکڑتی گئی، جتنا آسمان کھلا
دل میں لرزاں ہے ترا شعلۂ رخسار اب تک
میری منزل میں نہیں رات کے آثار اب تک
حسرتِ دادِ نہاں ہے مرے دل میں شاید
یاد آتی ہے مجھے قامتِ دلدار اب تک
وہ اُجالے کا کوئی سیلِ رواں تھا، کیا تھا؟
میری آنکھوں میں ہے اک ساعتِ دیدار اب تک
آپ نغموں کے منتظر ہوں گے
ہم تو فریاد لے کے آئے ہیں
ایک اپنا دیا جلانے کو
تم نے لاکھوں دئے بجھائے ہیں
کیا نظر آئے گا ابھی ہم کو
یک بیک روشنی سے آئے ہیں
الجھتے ہوئے دھوئیں کی فضا میں ہے اک لکیر
کیا پوچھتے ہو شمع سرِ رہ گزر کا رنگ
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks