کچھ سزا اِس کی بھی گر ہے تو بچیں گے کیسے
ہم کہ جو تُجھ سے تغافل کے گنہگار ہوئے
وُہ جنہیں قرب سے تیرے بھی نہ کچھ ہاتھ لگا
وُہی جذبات ہیں پھر در پئے آزار ہوئے
تن میں ترے مشعلیں جلاؤں
یہ رنگ بھی آ، تجھے دکھاؤں
جب سے مہکا ہے تن بدن تیرا
کھلبلی سی ہے اِک بہاروں میں
لہلہاتا ہے مثلِ گُل تُو ہی
فکرِ ماجدؔ کے کشت زاروں میں
کیسا موسم ہے یہ دِل پر ماجدؔ
تہ بہ تہ رنگ یہ کیا کیا دیکھوں
ذرا سے ایک اشارے سے یخ بدن کو مرے
روانیوں کے چلن سب سِکھا دئیے تُو نے
جب بھی دیکھوں یہ فلک، اَبر ہٹا کر دیکھوں
مَیں بدن کا ترے کھُلتا ہوا منظر دیکھوں
شعبدہ ہے، کہ تقاضا یہ تری دید کا ہے
ہر بُنِ مُو میں سمائے ہوئے اخگر دیکھوں
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks