اظہارِ تمّنا ہی کیا تھا مگر اُس پر
انداز عتابی وہ تمہارے، مری توبہ
ماجدؔ سرِ اغیار جو گزری وُہی لکھے
کیا رُوپ قلم نے ترے دھارے، مری توبہ
تو کہ عنواں ہے چاہتوں کا مری
آ، بہ شاخِ نظر سجاؤں تُجھے
انوار ہی پھُوٹتے ہیں اُس سے
زرخیز بڑی وُہ سرزمیں ہے
حرفوں سے جو منعکس ہے ماجدؔ
یہ بھی تو جمالِ ہم نشیں ہے
اپنے بدن کے لمس کی تبلیغ دیکھنا
ہم سحرِ آذری کے پرستار ہو گئے
ہیں شاخِ نظر کے یہ تقاضے
یہ برگ نہ ہاتھ سے مسلنا
ہے جسم سے جسم کا سخن کیا
یہ بزم کبھی سجا کے دیکھو
بے رنگ ہیں فرطِ خواب سے جو
لمحے وہ کبھی جگا کے دیکھو
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks