ہالہ ہے کہ اُس کا ہے گریباں
مطلع ہے کہ اُس کی آستیں ہے
کیا ذکر ہو اُس کے آستاں کا
جو لطف ہے جانئے وہیں ہے
ہر جنبشِ بدن کے تقاضے تھے مختلف
جذبے تمام مائلِ اظہار ہو گئے
سورج سا نگاہ میں مچلنا
آغوش سے چاند بن کے ڈھلنا
مشکل ہے بغیرِ قرب تیرے
اِس رُوح و بدن کا اب سنبھلنا
موزوں ہے سخن تجھے یہ ماجدؔ
پہلو کوئی اور مت بدلنا
حاصل ہے سرشکِ لالہ رُو کا
محجوب سا، دُرِّ آب سا وُہ
بارانِ کرم مرے لئے ہے
غیروں کے لئے عتاب سا وُہ
با وصفِ کرم، جو الجھن تھی وُہ اور کسی ڈھب جا نہ سکی
آخر کچھ وحشی جذبے ہی ہم دونوں کے غمخوار ہوئے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks