خود کو ہم سے وُہ چھپائے کیا کیا
حشر اِس دل میں اُٹھائے کیا کیا
گُل بہ گُل اُس کے فسانے لکھ کر
درد موسم نے جگائے کیا کیا
حرف در حرف شگوفے ہم نے
اُس کے پیکر کے، کھلائے کیا کیا
حُسن اُس کا بحّدِ نہاں دیکھنا
چاہتی ہے نظر ہر سماں دیکھنا
کنجِ لب جیسے کھڑکی کھُلے خُلد کی
قامت و قد کو طوبیٰ نشاں دیکھنا
آنکھ سے تو شراروں کا جھڑنا بجا
لمس تک سے بھی اُٹھتے دھُواں دیکھنا
ہُوا مباح ہمیں جو بھی کچھ کہ تھا ممنوع
ملیں بہ جنبشِ اَبرُو وُہ مُہلتیں کیا کیا
اک شور سا رَگ رَگ میں، تمازت دل و جاں میں
آثار قیامت کے وُہ سارے، مری توبہ
شوخیِ لب سے طیش میں لاؤں
اِن نگاہوں سے گدگداؤں تُجھے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks