مقام گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گرہوں
یہی سوز نفس ہے ، اور میری کیمیا کیا ہے!
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
آئین جواں مرداں ، حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
دیا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا
یہ اک مرد تن آساں تھا ، تن آسانوں کے کام آیا
دلوں میں ولولے آفاق گیری کے نہیں اٹھتے
نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہو انداز آفاقی
عقل عیار ہے ، سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ ملا ہے نہ زاہد نہ حکیم!
مرد درویش کا سرمایہ ہے آزادی و مرگ
ہے کسی اور کی خاطر یہ نصاب زر و سیم
عشق تری انتہا ، عشق مری انتہا
تو بھی ابھی ناتمام ، میں بھی ابھی ناتمام
عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks