دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
تو عرب ہو یا عجم ہو ، ترا لا الہ الا
لغت غریب ، جب تک ترا دل نہ دے گواہی
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا 'لا الہ الا اللہ'
نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو ، وہ قیصری کیا ہے!
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے ، تو نہیں جہاں کے لیے
نگہ بلند ، سخن دل نواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر ، اٹھتے ہیں حجاب آخر
ہر شے مسافر ، ہر چیز راہی
کیا چاند تارے ، کیا مرغ و ماہی
غافل نہ ہو خودی سے ، کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks