کوئی تحفہ بھی ضروری ہے چلانے کو انہیں
چل نہیں پاتے ہیں رشتوں کے سہارے رشتے
زندگی تو ابتداء سے موت کے چنگل میں ہے
کستا جاتا ہے شکنجہ وقت کا ہر لمحہ اور
اب تو اپنی خواہشوں کے سلسلے بھی ختم ہیں
راز ہوتا جا رہا ہوں بے صدا ہر لمحہ اور
اس زمانے کے فریبوں سے بچا کوئی نہ تھا
منزلیں تھیں سامنے پر راستہ کوئی نہ تھا
زندگی میں جو ملے اچھے لگے ، اپنے لگے
میں تو سب کا ہو گیا لیکن میرا کوئی نہ تھا
غموں نے مجھ کو بنا ہی دیا تیرے قابل
خوشی ملی تو میں کترا کے چل دیا تنہا
آنکھوں میں مری سما کے دیکھو
یہ مشعلیں بھی جلا کے دیکھو
افق پہ ذہن کے موزوں ہیں یُوں خیال ترے
میانِ قامت و رُخ جُوں سجے ہیں گال ترے
طُرفہ ہیں بُہت میرے دل و جاں کی پھواریں
اس بزم میں آ اور مثالِ گُلِ تر جا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks