مے نہیں قصرِ زندگانی ہے
روشنی ہے ، ہوا ہے ، پانی ہے
شام ہوتی ہے دیا جلتا ہے میخانے کا
کون سا باب ہے یہ زیست کے افسانے کا
اگرچہ محتسب بھی ان گنت تھے اس شبستان میں
مگر سب میکشوں کے یار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
ملاقاتیں مسلسل ہوں تو دلچسپی نہیں رہتی
بے بے ترتیب یارانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
اس کے سینے کا زیرو بم ، توبہ!
دیوتاؤں کا دل دھڑک جائے
بس اک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری ، آستانے ترے
یوں جستجوئے یار میں آنکھوں کے بل گئے
ہم کوئے یار سے بھی کچھ آگے نکل گئے
وہ بھی تو زندگی کے ارادوں میں تھے شریک
جو حادثات تیری مروّت سے ٹل گئے
زُلفِ برہم سنبھال کر چلئے
راستہ دیکھ بھال کر چلئے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks